Sunday, July 5, 2009

کولکتہ میں بس حادثہ، نو ہلاک

ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں ہاوڑا ریلوے سٹیشن کے نزدیک ایک بس حادثے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور بارہ زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق زخمیوں کی حالت نازک ہے اس لیے مرنے والوں کی تعداد ميں اضافہ ہو سکتا ہے۔
زخمیوں کو نزدیکی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق تیز رفتار میں دو بسیں بنکم برج پر اوور ٹیک کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ایک بس سڑک سے نیچے ریل کی پٹڑیوں پر جا گری۔ مغربی بنگال کے ٹرانسپورٹ کے وزیر سبھاش چکرورتی نے بتایا ’عام طور پر زیادہ مسافر پانے کے لیے بسوں کے ڈرائیور اسی طرح سے تیز رفتار سے گاڑیاں چلاتے ہیں۔ کولکتہ میں ہونے والے بیشتر سڑک حادثے ان حالات ميں ہی ہوتے ہیں۔ یہ حادثہ بھی اسی وجہ سے ہوا‘۔
سنيچر کو ہونے والے حادثے میں بس سٹیشن کی دو پٹڑیوں پر گری ۔ ریلوے کے ترجمان سمیر گوسوامی نے بتایا کہ بس سے مسافروں کو باہر نکالنے کے لیے پہلے تو اس کے شیشے توڑے گئے اور بعد میں گیس کٹر کا استعمال کر کے شدید زخمیوں کو بس سے باہر نکالا گیا۔'
حادثے کے سبب ہاوڑا سٹیشن پر ٹرین کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ بس کے گرنے سے ٹرینوں کو چلانے والے بجلی کے تار ٹوٹ گئے ہیں۔ سمیر گوسوامی نے بی بی سی کو بتایا ’ہاوڑا سٹیشن پر پلیٹ فارم 10 سے 23 تک کی بجلی بند کر دی گئی ہے تاکہ کوئی دیگر حادثہ پیش نہ آئے
‘۔

send us comment

ہندوستان میں ہم جنس پرستوں نے عدالت میں تو ایک بڑی قانونی لڑائی جیت لی ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں خود کو تسلیم کرانا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

آگے کا سفر کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ تعزیرات ہند کی دفعہ تین سو ستتر کے خلاف دلی ہائی کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے پر تقریباً سبھی مذہبی اور سیاسی حلقوں کے رد عمل سے لگایا جاسکتا ہے۔ (اس شق کے تحت ہندوستان میں 'غیر فطری' جنسی عمل پر پابندی ہے لیکن دلی ہائی کورٹ نے اس پابندی کو غیر آئینی قرار دیا ہے)۔

لیکن ماہر سماجیات اور ہم جنس پرست دونوں ہی کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ معاشرے میں بیداری آئے گی اور ہم جنس پرستوں کے خلاف سماجی بندشیں ختم ہو جائیں گی۔

دلی یونیورسٹی میں سماجیات کی پروفیسر ڈاکٹر نندنی سندر کا خیال ہے کہ انڈین معاشرے میں ہم جنس پرستی کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں۔

’نہ تو یہ کوئی نئی بات ہے جو اچانک معاشرے میں ابھری ہے اور نہ ہم جسن پرستوں کے ساتھ اب جو سلوک ہوتا ہے وہ کوئی روایتی ہندوستانی نظریہ ہے۔ یہ در اصل برطانوی اخلاقی اقدار تھیں، جو ہندوستان پر تھوپی گئیں۔آپ پشتو شاعری کی بات کریں یا تیلگو ادب کی، ہم جنس پرستی کی مثالیں جگہ جگہ نظر آئیں گی۔‘

لیکن ملک میں جو لوگ خود کو اخلاقی اقدار کا نگہ بان مانتے ہیں، ان کا موقف بالکل واضح ہے چاہے وہ ہندو قوم پرست تنظیم وی ایچ پی ہو، یا ہندو، مسلم اور عیسائی مذہبی رہنماء۔ یہ معاشرے کی تباہی کے آثار ہیں۔کوئی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور انڈیا میں یوگا کے ایک مشہور گورو سوامی رام دیو کا تو کہنا ہے کہ ' ہم جنس پرست ذہنی مریض ہوتے ہیں، انہیں قانونی تحفظ نہیں ہسپتالوں کی ضرورت ہے۔'

ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی پرمدا مینن کا جواب مختصر ہے:’ہم بھی اسے معاشرے کا حصہ ہیں جس کے آپ، ہم ہی سماج بناتے ہیں، بس ہماری جنسی پسند مختلف ہے۔ عدالت کا فیصلہ پہلا قدم ہے، معاشرہ بھی آہستہ آہست بدل جائے گا۔ پہلے کیا بیواؤں کو شادی کی اجازت تھی؟ کیا لڑکیاں سکول جاسکتی تھیں؟ اپنی مرضی سے شادیاں کرسکتی تھی؟ لیکن آج ہر لڑکی اسے اپنا حق سمجھتی ہے۔‘

ڈاکٹر سندر کا کہنا ہے کہ ’مذہبی رہنما تو بہت کچھ کہتے ہیں، ہم ان کی ہر بات پر تو عمل نہیں کرتے۔ کچھ مذہبی گروپ اسقاط حمل کے بھی خلاف ہیں، ضبط تولید کے بھی، کیا ہم ان کی بات مانتے ہیں؟ میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ ہم جنس پرستی اب جرم نہیں ہے لہذا اس کے تئیں سماجی رویہ میں تبدیلی آئے گی۔ اسی طرح جیسے ستی (شوہر کی لاش کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی جلا دینے کی قدیم رسم) اور بیواؤں کی دوبارہ شادی کے بارے میں آئی ہے۔‘

’نہ تو یہ کوئی نئی بات ہے جو اچانک معاشرے میں ابھری ہے اور نہ ہم جسن پرستوں کے ساتھ اب جو سلوک ہوتا ہے وہ کوئی روایتی ہندوستانی نظریہ ہے۔ یہ در اصل برطانوی اخلاقی اقدار تھیں، جو ہندوستان پر تھوپی گئیں۔آپ پشتو شاعری کی بات کریں یا تیلگو ادب کی، ہم جنس پرستی کی مثالیں جگہ جگہ نظر آئیں گی۔‘
لیکن یہ تبدیلی شروع کہاں سے ہوگی؟ اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں بچے آج بھی ’ آسمان سے آتے ہیں یا پریاں پہنچا کر جاتی ہیں‘ وہاں والدین اس حقیقت کا سامنا کیسے کریں کہ ان کے بچے کی جنسی پسند دوسرے لوگوں سے مختلف ہے؟
پرمدا اور ڈاکٹر سندر دونوں کا خیال ہے کہ والدین کو سماج کے بارے میں نہیں اپنے بچوں کی خوشیوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

’پہلے ذات سے باہر بھی شادی ہوتی تھی تو والدین کہتے تھے کہ سماج میں عزت برباد ہوگئی۔لیکن اب اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اگر والدین کو اپنے بچوں سے واقعی پیار ہے تو انہیں سوچنا چاہیے کہ بچے کی خوشی زیادہ ضروری ہے یا سماج کی رائے۔ انہیں 'ایڈجسٹ' کرنا ہی پڑے گا۔‘

ایک اور غیر سرکاری تنظیم ساما سے وابستہ دیپا کہتی ہیں کہ قانون کے خلاف عدالت کے فیصلے کا ایک بڑا اثر یہ ہوگا کہ زیادہ لوگ کھل کر اپنی جنسی پسند کا اظہار کریں گے۔

اس کا ثبوت جمعہ کے ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول پر ایک تصویرکی شکل میں موجود ہے جس میں دو نوجوانوں کو بوس و کنار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن کیا یہ تصویر معاشرے میں کسی گراں قدر تبدیلی کا پیش خیمہ ہے؟ اگر عدالت کے فیصلے پر ردعمل سے کوئی نتیجہ اخد کیا جاسکتا ہے تو شاید نہیں، یہ زیادہ سے زیادہ ایک ابتدائی قانونی فتح کا جشن ہے، اصل جنگ ابھی باقی ہے۔

MI6، سربراہ کی نجی معلومات افشا

ٹرانسفارمرز: باکس آفس میں اول نمبر پر

شمالی امریکہ میں فلم ٹرانسفارمرز: ریوینج آف دی فالن نے پہلے پانچ روز میں دو سو ایک اعشاریہ دو ملین ڈالر سے زائد کا بزنس کیا ہے اور باکس آفس میں اول نمبر پر رہی۔
اس فلم نے توقعات سے زیادہ اچھا بزنس کیا ہے۔ لیکن پانچ روز کا ریکارڈ نہ توڑ سکی جو کہ دو سو تین اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر ہے جو کہ پچھلے سال فلم دی ڈارک نائٹ نے قائم کیا تھا۔
فلم ٹرانسفارمرز کے اس دوسرے حصے کے بارے میں ناقدین کے ملے جلے خیالات ہیں۔
رومانوی کامیڈی دی پروپوزل دوسرے نمبر پر آ گئی ہے۔
پیراماؤنٹ پکچرز کا کہنا ہے کہ ٹرانسفارمرز: ریوینج آف دی فالن کو دیکھنے کے لیے 46 فیصد خواتین آئیں جبکہ یہی شرح پہلی فلم میں 40 فیصد تھی۔ اس فلم کا پہلا حصہ شمالی امریکہ میں اس سال کی تیسری بڑی فلم تھی اور اس فلم نے تین سو انیس ملین ڈالر کمائے۔
پیراماؤنٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانسفارمرز: ریوینج آف دی فالن کو بنانے میں دو ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور اس ہفتے کے آخر تک یہ فلم تین سو ملین ڈالر بنا لے گی۔
دیگر فلموں میں مزاحیہ فلم دی ہینگ اوور چوتھے ہفتے بھی بڑی مقبول رہی۔ اور فلموں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر مائی سسٹرز کیپر ہے۔

سلم ڈاگ : اظہر کو آخر کارگھر مل گیا

فلم سلم ڈاگ ملینئیر کے چائلڈ اداکار اظہرالدین اسماعیل کو آخر کار گھر مل گیا۔وہ اپنے والدین کے ہمراہ ممبئی کے مضافات کے پوش علاقے کے ایک فلیٹ میں سنیچر کے روز منتقل ہو گئے۔
سانتاکروز میں ملن سب وے کے قریب بنی ایک نئی عمارت میں اظہر کوگراؤنڈ فلور کا مکان ملا ہے۔ دو کمروں کے اس مکان میں اظہر بہت خوش ہیں کیونکہ اب تک ان کی زندگی فٹ پاتھ پر لکڑی اور پلاسٹک کی چھت سے بنے مکان میں گزری تھی۔
اظہر کو یہ مکان سلم ڈاگ ملینئیر کے پروڈیوسرز کے بنائے گئے ٹرسٹ جے ہو نےدلوایا ہے۔ ٹرسٹ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ مکان انہوں نے بیس لاکھ پچاس ہزار روپے میں خریدا ہے۔ مکان فی الحال ٹرسٹ کے نام پر ہی ہے اور اٹھارہ سال کی عمر ہونے کے بعد مکان اظہر کے نام پر کر دیا جائے گا۔
فلم سلم ڈاگ ملینئیر کو آسکر میں آٹھ ایوارڈ ملے تھے۔ فلم ممبئی کی کچی بستیوں میں رہنے والے بچوں کی زندگی کے اردگرد گھومتی ہے جس میں اظہر نے فلم کے ہیرو جمال ملک کے بڑے بھائی سلیم کے بچپن کا کردار نبھایا تھا۔ اسی فلم میں ان کے ساتھ روبینہ قریشی نے بھی فلم کی ہیروئن لتیکا کے بچن کا رول کیا تھا۔
دونوں بچے ممبئی کی کچی بستی غریب نگر میں رہتے تھے۔ مقامی میونسپل انتظامیہ نے جب دونوں کے گھروں کو منہدم کر دیا تب فلم کے پروڈیوسرز کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا اس واقعہ کے بعد برطانوی ہدایت کار ڈینی بوئیل خصوصی طور پر ممبئی آئے تھے اور انہوں نے دونوں بچوں کو مکان دلانے کا وعدہ کیا تھا۔
اظہر کو مکان مل چکا ہے لیکن روبینہ ابھی باندرہ کے اسی غریب نگر کچی بستی میں اپنے والد کے ساتھ رہ رہی ہے۔ روبینہ کے والد رفیق قریشی کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی گھر نہیں دیا گیا ہے۔
اظہر اور روبینہ کے ہمراہ اس فلم میں اسی بستی کے کئی اور بچوں نے کام کیا تھا لیکن ان کا رول اتنا اہم نہیں تھا اور نہ ہی ان کی تقدیر۔ ممبئی جس کی آبادی ایک کروڑ پچاس لاکھ کے قریب ہے ، اس کا ساٹھ فیصد حصہ آج بھی کچی بستیوں میں رہتا ہے۔

آخری رسومات، ڈیڈلائن ختم

امریکی پاپ سنگر مائیکل جیکس کی آخری رسومات کی 17،500 مفت ٹکٹوں کی ڈیڈلائن گذر گئی ہے۔اس موقع کے لیے بارہ لاکھ لوگوں نے اپنے کوائف کا اندراج کروایا ہے۔
منگل کو لاس اینجلس میں ہونے والی ان رسومات میں شرکت کرنے والوں کا انتخاب سٹیپلز سینٹر ڈاٹ کام پر قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جائے گا۔
51 سالہ جیکسن گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے ان کی آخری رسومات سٹیپلز سینٹر میں ادا کی جائیں گی۔
لاس اینجلس کی پولیس کا خیال ہے تقریباً سات لاکھ افراد اس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس علاقے کو سیل کر دیا جائے گا اور صرف انہیں لوگوں کو آگے جانے کی اجازت ہوگی جن کے پاس ٹکٹ ہوگا۔
جیکسن فیملی کے ترجمان کین سن شائن نے ایک بیان میں بتایا کہ ابھی تک پانچ لاکھ سے زائد لوگ ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے کوائف کا اندراج کروا چکے ہیں۔
ان رسومات میں شرکت کے لیے مجموعی طور پر گیارہ مزار ٹکٹ جاری کیے جائیں گے اور دنیا کے کسی بھی حصے سے لوگ ان ٹکٹوں کے لیے اپنے کوائف کا اندراج کروا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ساڑھے چھ ہزار ٹکٹ اور جاری کیے جائیں گے جن سے لوگ نزدیکی ایک تھیئٹر میں بیٹھ کر براہِ راست یہ رسومات دیکھ سکتے ہیں۔
افسران کے مطابق جن لوگوں کو ٹکٹ دینے کے لیے منتخب کیا جائے گا انہیں ٹکٹ ماسٹر کے ذریعے پیر تک یہ ٹکٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
پہلے سٹیپلز سینٹر ڈاٹ کام نے کہا تھا کہ یہ ٹکٹ صرف امریکی شہری ہی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اب افسران نے اس بات کی تردید کی ہے۔
حکام نے دیگر مداحوں کو اپنے گھر میں رہ کر اس عہد ساز گلوکار کی آخری رسومات دیکھنے کا مشورہ دیا ہے۔