Sunday, July 5, 2009

send us comment

ہندوستان میں ہم جنس پرستوں نے عدالت میں تو ایک بڑی قانونی لڑائی جیت لی ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں خود کو تسلیم کرانا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

آگے کا سفر کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ تعزیرات ہند کی دفعہ تین سو ستتر کے خلاف دلی ہائی کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے پر تقریباً سبھی مذہبی اور سیاسی حلقوں کے رد عمل سے لگایا جاسکتا ہے۔ (اس شق کے تحت ہندوستان میں 'غیر فطری' جنسی عمل پر پابندی ہے لیکن دلی ہائی کورٹ نے اس پابندی کو غیر آئینی قرار دیا ہے)۔

لیکن ماہر سماجیات اور ہم جنس پرست دونوں ہی کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ معاشرے میں بیداری آئے گی اور ہم جنس پرستوں کے خلاف سماجی بندشیں ختم ہو جائیں گی۔

دلی یونیورسٹی میں سماجیات کی پروفیسر ڈاکٹر نندنی سندر کا خیال ہے کہ انڈین معاشرے میں ہم جنس پرستی کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں۔

’نہ تو یہ کوئی نئی بات ہے جو اچانک معاشرے میں ابھری ہے اور نہ ہم جسن پرستوں کے ساتھ اب جو سلوک ہوتا ہے وہ کوئی روایتی ہندوستانی نظریہ ہے۔ یہ در اصل برطانوی اخلاقی اقدار تھیں، جو ہندوستان پر تھوپی گئیں۔آپ پشتو شاعری کی بات کریں یا تیلگو ادب کی، ہم جنس پرستی کی مثالیں جگہ جگہ نظر آئیں گی۔‘

لیکن ملک میں جو لوگ خود کو اخلاقی اقدار کا نگہ بان مانتے ہیں، ان کا موقف بالکل واضح ہے چاہے وہ ہندو قوم پرست تنظیم وی ایچ پی ہو، یا ہندو، مسلم اور عیسائی مذہبی رہنماء۔ یہ معاشرے کی تباہی کے آثار ہیں۔کوئی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور انڈیا میں یوگا کے ایک مشہور گورو سوامی رام دیو کا تو کہنا ہے کہ ' ہم جنس پرست ذہنی مریض ہوتے ہیں، انہیں قانونی تحفظ نہیں ہسپتالوں کی ضرورت ہے۔'

ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی پرمدا مینن کا جواب مختصر ہے:’ہم بھی اسے معاشرے کا حصہ ہیں جس کے آپ، ہم ہی سماج بناتے ہیں، بس ہماری جنسی پسند مختلف ہے۔ عدالت کا فیصلہ پہلا قدم ہے، معاشرہ بھی آہستہ آہست بدل جائے گا۔ پہلے کیا بیواؤں کو شادی کی اجازت تھی؟ کیا لڑکیاں سکول جاسکتی تھیں؟ اپنی مرضی سے شادیاں کرسکتی تھی؟ لیکن آج ہر لڑکی اسے اپنا حق سمجھتی ہے۔‘

ڈاکٹر سندر کا کہنا ہے کہ ’مذہبی رہنما تو بہت کچھ کہتے ہیں، ہم ان کی ہر بات پر تو عمل نہیں کرتے۔ کچھ مذہبی گروپ اسقاط حمل کے بھی خلاف ہیں، ضبط تولید کے بھی، کیا ہم ان کی بات مانتے ہیں؟ میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ ہم جنس پرستی اب جرم نہیں ہے لہذا اس کے تئیں سماجی رویہ میں تبدیلی آئے گی۔ اسی طرح جیسے ستی (شوہر کی لاش کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی جلا دینے کی قدیم رسم) اور بیواؤں کی دوبارہ شادی کے بارے میں آئی ہے۔‘

’نہ تو یہ کوئی نئی بات ہے جو اچانک معاشرے میں ابھری ہے اور نہ ہم جسن پرستوں کے ساتھ اب جو سلوک ہوتا ہے وہ کوئی روایتی ہندوستانی نظریہ ہے۔ یہ در اصل برطانوی اخلاقی اقدار تھیں، جو ہندوستان پر تھوپی گئیں۔آپ پشتو شاعری کی بات کریں یا تیلگو ادب کی، ہم جنس پرستی کی مثالیں جگہ جگہ نظر آئیں گی۔‘
لیکن یہ تبدیلی شروع کہاں سے ہوگی؟ اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں بچے آج بھی ’ آسمان سے آتے ہیں یا پریاں پہنچا کر جاتی ہیں‘ وہاں والدین اس حقیقت کا سامنا کیسے کریں کہ ان کے بچے کی جنسی پسند دوسرے لوگوں سے مختلف ہے؟
پرمدا اور ڈاکٹر سندر دونوں کا خیال ہے کہ والدین کو سماج کے بارے میں نہیں اپنے بچوں کی خوشیوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

’پہلے ذات سے باہر بھی شادی ہوتی تھی تو والدین کہتے تھے کہ سماج میں عزت برباد ہوگئی۔لیکن اب اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اگر والدین کو اپنے بچوں سے واقعی پیار ہے تو انہیں سوچنا چاہیے کہ بچے کی خوشی زیادہ ضروری ہے یا سماج کی رائے۔ انہیں 'ایڈجسٹ' کرنا ہی پڑے گا۔‘

ایک اور غیر سرکاری تنظیم ساما سے وابستہ دیپا کہتی ہیں کہ قانون کے خلاف عدالت کے فیصلے کا ایک بڑا اثر یہ ہوگا کہ زیادہ لوگ کھل کر اپنی جنسی پسند کا اظہار کریں گے۔

اس کا ثبوت جمعہ کے ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول پر ایک تصویرکی شکل میں موجود ہے جس میں دو نوجوانوں کو بوس و کنار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن کیا یہ تصویر معاشرے میں کسی گراں قدر تبدیلی کا پیش خیمہ ہے؟ اگر عدالت کے فیصلے پر ردعمل سے کوئی نتیجہ اخد کیا جاسکتا ہے تو شاید نہیں، یہ زیادہ سے زیادہ ایک ابتدائی قانونی فتح کا جشن ہے، اصل جنگ ابھی باقی ہے۔

No comments:

Post a Comment